ارنا رپورٹ کے مطابق، ایرانی عدلیہ کے نائب سربراہ برائے بین الاقوامی امور اور انسانی حقوق کونسل کے سربراہ "کاظم غریب آبادی" نے نیوریاک میں ایرانی میڈیا کے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی ملاقاتوں اور اجلاسوں سے متعلق کہا کہ انہوں نے نیویارک میں تین کام کے دنوں کے دوران، ایک گروپ میں 80 سے زائد ممالک کے نمائندوں سے ملاقات کی اور بات چیت کی، جن میں ناوابستہ تحریک کے رکن ممالک، اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک، اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے دوستی گروہ شامل تھے۔
غریب آبادی نے مزید کہا کہ انہوں نے ایک درجن سے زیادہ سفیروں اور مختلف ممالک کے مستقل نمائندوں اور اقوام متحدہ کی اقتصادی اور سماجی کونسل کے سربراہ سے بھی ملاقات اور گفتگو کی۔
*تبدیلیوں سے متعلق درست اور حقیقی وضاحت پر خصوصی توجہ
ایرانی عدلیہ کے نائب سربراہ برائے بین الاقوامی امور نے کہا کہ ان مذاکرات میں ہم نے تبدیلیوں کے بارے میں صحیح اور حقیقی وضاحت پر توجہ مرکوز کرنے اور ایک درست تصویر پیش کرنے کی کوشش کی جن کو بعض مغربی ممالک اور امریکہ پُرامن اجتماعات کہتے ہیں۔
غریب آبادی نے ان مذاکروں کے موضوعات کے بارے میں کہا کہ ہم نے ان ملاقاتوں میں مختلف موضوعات پر دستاویزی انداز میں اور منطقی وجوہات پیش کرتے ہوئے گفتگو کی۔
*مغربی ممالک اور امریکہ کی خاموشی اور موقف کو چیلنج کیا گیا
انہوں نے کہا کہ ان ملاقاتوں میں، ہم نے دستاویزی اور معروضی طور پر کچھ ممالک کی فسدات میں معاون کردار اور سیاسی موقف و نیز انسانی حقوق کے بعض میکنزم بشمول شیراز کے حالیہ دہشتگردانہ حملے پر خاموشی کو چیلنج کیا۔
ایرانی عدلیہ کے نائب سربراہ برائے بین الاقواموی امور نے کہا کہ ان ملاقاتوں کے دوران خاص طور پر اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے ساتھ ملاقاتوں میں مختلف محوروں کے علاوہ ہم نے ایک اور مسئلہ پر بھی خصوصی طور پر ممالک کے ساتھ تبادلہ خیال کیا اور وہ فسادت سے متعلق سوشل نیٹ ورکس اور بہض میڈیا کے تباہ کن کردار تھا۔
*فارسی زبان ایران مخالف میڈیا کا تخریبی اور دہشت گردانہ کارروائیوں کی حوصلہ افزائی میں کردار
انسانی حقوق کی کونسل کے سربراہ نے کہا کہ ان ملاقاتوں میں ہم نے خاص طور پر انسٹاگرام اور ٹویٹر کے کردار کا ذکر کیا اور درحقیقت ایران مخالف فارسی زبان کے میڈیا کے کردار کا ذکر کیا جو بیرون ملک مقیم ہیں جو تشدد، عدم تحفظ اور جرائم کو فروغ دینے اور دہشت گردانہ کارروائیوں کو اکسانے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے میدان میں کام کرتے ہیں۔
غریب آبادی نے کہا کہ فارسی زبان میں بی بی سی اور سعودی انٹرنیشنل کی طرف سے علیحدگی پسند گروپوں اور دہشت گرد گروہوں کے ارکان کے ساتھ سینکڑوں انٹرویوز کا انعقاد اور تشدد اور جرائم کی حوصلہ افزائی کو دستاویزی اور مستند طریقے سے ممالک کے سامنے پیش کیا گیا۔
*ایران مخالف سوشل میڈیا اور فارسی زبان کی غلط معلومات
ان ملاقاتوں میں ہم نے اس حقیقت کو مدنظر رکھا کہ وفود اور ممالک کو متعلقہ ملک سے اور تہران میں اپنے سفارت خانوں سے بھی صحیح اور حقیقی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی کیونکہ سوشل چینلز اورایران مخالف نیٹ ورک درست اور قابل اعتماد ذرائع نہیں ہیں۔
*برطانیہ کو ذمہ دار سمجھتے ہیں
حقیقت میں ایران مخالف فارسی میڈیا کے اقدامات مکمل طور پر قوانین و ضوابط کے خلاف ہیں اور ہم اس سلسلے میں برطانوی حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ آفکام ریگولیٹری آرگنائزیشن کو ان میڈیا کی خلاف ورزیوں سے نمٹنا ہوگا لیکن بڑی افسوس کی بات ہے کہ ہمیں برطانوی حکومت کی حمایت نظر آتی ہے۔
*ایران مخالف فارسی میڈیا کا کردار دہشت گرد گروہوں سے کم نہیں ہے
غریب آباد نے کہا کہ ان ایرانی مخالف میڈیا کا کردار دہشت گرد گروہوں یا ان گروہوں کے ارکان سے کم نہیں ہے اور آپ نے دیکھا کہ محکمہ انٹیلی جنس نے سعودی بین الاقوامی نیٹ ورک کو دہشت گرد میڈیا قرار دیا ہے اور اس کے ملازمین دہشت گرد ہیں۔ ایسی ہی قسمت بی بی فارسی کی منتظر ہے۔
ایرانی عدلیہ کے نائب سربراہ برائے بین الاقوامی امور نے کہا کہ ان ذرائع ابلاغ کے تمام اقدامات تشدد، جرائم، عدم تحفظ اور دہشت گردی کے لیے اکسانے والے ہیں۔
*ایران مخالف سوشل نیٹ ورکس اور میڈیا کے تباہ کن کردار کے بارے میں ممالک میں ضروری حساسیت پیدا کی گئی
انہوں نے کہا کہ ان ملاقاتوں میں فسادات کے صحیح بیانیے کی ضروری وضاحت اور پیش کش کے علاوہ، فسادات میں بعض سوشل نیٹ ورکس اور ایران مخالف فارسی میڈیا کے تباہ کن کردار کے بارے میں ممالک کے درمیان مناسب حساسیت پیدا کی۔
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu
آپ کا تبصرہ